Sunday, December 25, 2011

قرب میسر ہو تو یہ پوچھیں

آج کل میرا شاعری کا فیز چل رہا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے، المیہ قسم کی شاعری مجھے ہمیشہ سے بہت متاثر کرتی آئی ہے۔ بلکہ موضوعات سے زیادہ میں الفاظ اور طرزبیاں سے متاثر ہوتی ہوں۔ جیسے:

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ‍ جستجو کیا ہے

بہرحال، آج اپنے محبوب مصنف/ شاعر ابن انشاء کی کچھ‍ شاعری شیئر کرنا چاہوں گی۔

قرب میسر ہو تو یہ پوچھیں، درد ہو تم یا درماں ہو
دل میں تو آن بسے ہو لیکن مالک ہو یا مہماں ہو

دوری، آگ سے دوری بہتر، قربت کا انجام ہے راکھ‍
آگ کا کام فروزاں ہونا، راکھ‍ ضرور پریشاں ہو

سودا، عشق کا سودا ہم نے جان کے جی کو لگایا ہے
عشق یہ صبر وسکون کا دشمن، پیدا ہو یا پنہاں ہو

عشق وہ آگ کے جس میں تپ کے سونا کندن ہوتا ہے
تجھ‍ کو اس آگ میں کچھ نہیں ہو تو آ اس آگ میں بریاں ہو

شہر کے دشت کہو بھئی سادھو، ہاں بھئی سادھو شہر کے دشت
ہم بھی چاک گریباں ٹھہرے، تم بھی چاک گریباں ہو

ابن انشاء


Tuesday, December 13, 2011

پیش لفظ

بچپن میں مجھے ایک لطیفہ بہت پسند تھا، اپنے اردو بلاگ کا آغاز کرنے سے پہلے میں وہ لطیفہ شیئر کرنا چاہوں گی۔ 

لطیفہ کچھ یوں ہے کہ چار آدمی نماز پڑھ رہے تھے۔ اچانک کوئی صاحب ان کے سامنے سے گزر گئے۔  نماز پڑھتے پڑھتے ہی چاروں میں سے ایک غضب ناک لہجے میں بولا، "ابے او نالائق، اتنا بھی نہیں جانتا کہ نمازیوں  کے آگے سے گزرنا گناہ عظیم ہے، "  دوسرا نمازی جھٹ بولا، "نماز کے دوران بولنا جائز نہیں۔" تیسرے صاحب کیوں پیچھے رہتے، فورا بولے، "میرا خیال ہے کہ نماز کے دوران تو آپ بھی بول رہے ہیں۔" جبکہ چوتھے نمازی نے باآواز بلند کہا، " اللہ کا شکر ہے میں کچھ نہیں بولا۔"

میرا خیال ہے کہ یہ ایک بڑا دل چسپ لطیفہ ہے، بلکہ ہماری سماجی اور اخلاقی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اپنی زندگیوں میں ہم سب بھی کہیں نہ کہیں ان چاروں نمازیوں کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں؟ بلکہ مختلف مواقع پر ہم ان میں سے کسی ایک یا شاید سبھی کی طرح ردعمل کر رہے ہوتے ہیں۔   ہم دوسروں کی غلطیاں بیان کرتے ہوئے پہلے نمازی کی طرح عمل کر رہے ہوتے ہیں، اور کبھی ہمیں چوتھے نمازی کی طرح زعم ہوتا ہے کہ "میں کچھ نہیں بولا"۔ 

یہ سب تمہید اس لیے کہ اس بلاگ میں آپ کو وقتا فوقتا یہ چاروں رنگ ملیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی مجھے خود بھی احساس نہ ہو کہ میں ان چاروں صاحبان میں سے کون ہوں، لیکن قرین قیاس ہے کہ ہم سب جانتے ہیں لیکن تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔