Sunday, December 25, 2011

قرب میسر ہو تو یہ پوچھیں

آج کل میرا شاعری کا فیز چل رہا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے، المیہ قسم کی شاعری مجھے ہمیشہ سے بہت متاثر کرتی آئی ہے۔ بلکہ موضوعات سے زیادہ میں الفاظ اور طرزبیاں سے متاثر ہوتی ہوں۔ جیسے:

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ‍ جستجو کیا ہے

بہرحال، آج اپنے محبوب مصنف/ شاعر ابن انشاء کی کچھ‍ شاعری شیئر کرنا چاہوں گی۔

قرب میسر ہو تو یہ پوچھیں، درد ہو تم یا درماں ہو
دل میں تو آن بسے ہو لیکن مالک ہو یا مہماں ہو

دوری، آگ سے دوری بہتر، قربت کا انجام ہے راکھ‍
آگ کا کام فروزاں ہونا، راکھ‍ ضرور پریشاں ہو

سودا، عشق کا سودا ہم نے جان کے جی کو لگایا ہے
عشق یہ صبر وسکون کا دشمن، پیدا ہو یا پنہاں ہو

عشق وہ آگ کے جس میں تپ کے سونا کندن ہوتا ہے
تجھ‍ کو اس آگ میں کچھ نہیں ہو تو آ اس آگ میں بریاں ہو

شہر کے دشت کہو بھئی سادھو، ہاں بھئی سادھو شہر کے دشت
ہم بھی چاک گریباں ٹھہرے، تم بھی چاک گریباں ہو

ابن انشاء


No comments:

Post a Comment